امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ سے عقیدت
حضرت امام شا فعی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنا قاصد امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کے پا س یہ پیغام دے کر بھیجا کہ آپ عنقریب ایک عظیم مصیبت میں گرفتار ہونے والے ہیں ۔ مگر اس سے سلامتی کے ساتھ نکل جائیں گے ۔ جب قاصد نے امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کو یہ خبر دی تو امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے ہدیہ میں اپنا کر تا اس قاصد کو دے دیا۔
قاصد کر تا لے کر امام شا فعی رحمتہ اللہ علیہ کے پا س پہنچے ۔ امام شا فعی رحمتہ اللہ علیہ نے دریا فت کیا کہ کیا انہو ں نے اس کے نیچے کچھ پہنا ہوا تھا ؟ قاصد نے جوا ب دیا کہ نہیں !....امام شا فعی رحمتہ اللہ علیہ نے اسے بو سہ دیا اور آنکھو ں پر رکھا اور اس کر تے کو بر تن میں رکھ کر اس پر پانی ڈالا اور مل کر نچو ڑ ااور اس غسالہ پانی کو شیشی میں بند کیا اور اپنے پا س رکھا ۔ پھر جب ان کے ساتھیو ں ، ر شتے دا رو ں میں سے کوئی بیما ر ہو تا تو اس پا نی میں سے تھوڑا سا بھیج دیتے ۔ جب وہ بیما ر اسے اپنے جسم پر چھڑکتا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے و ہ شفا یا ب ہو جا تا ۔ (عبید اللہ ۔ لا ہو ر )
غیبت کتنی بری ہے ؟
ایک مر تبہ حضرت خواجہ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ سے کسی شخص نے کہا کہ فلاں شخص نے آپ کی غیبت کی ہے ؟ آپ نے چھو ہا رے منگوائے اور ایک بر تن میں رکھ کر اس شخص کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیجے کہ میں آپ کا شکر گزار ہو ں ، آپ نے میری غیبت کر کے اپنی نیکیو ں کو میرے نامہ ¿ اعمال میں منتقل کر دیا۔ میں آپ کے اس احسان کا بدلہ چکا نہیں سکتا ۔ تا ہم یہ حقیر ساتحفہ قبول فرمائیے۔ وہ شخص خواجہ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کے اس سلو ک سے بہت شرمندہ ہوا اور آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر معا فی مانگ لی ۔ (عمران ۔ جھنگ)
مجبو رو مختار
ایک مر تبہ ایک یہو دی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ انسان مجبو ر ہے یا بااختیار ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا کہ ایک ٹانگ اٹھاﺅ، اس نے اٹھائی ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرما یا : دوسری بھی اٹھا ﺅ ۔ اس نے جواب دیا پھر تو میں گر جاﺅ ں گا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بس اتنا انسان مجبو ر ہے اوراتنا ہی با اختیا رہے ۔ (ندیم ۔ اٹک)
حافظ شیرا زی کون تھے ؟
خو اجہ شمس الدین محمد حافظ شیرا زی فارسی زبان کے بہت بڑے شا عر تھے ۔ آٹھویں صدی ہجری کے آغاز میں شیراز (ایران ) میں پیدا ہو ئے اور ۱۹۷ءمیں وفا ت پا گئے ۔ حافظ قرآن تھے۔ شروع ہی سے شعر و تصوف کے مطالعے کا شوق رکھتے تھے ۔ حافظ شیرازی قطعات ، قصائد ، رباعیا ت اور مثنوی بھی لکھتے تھے ۔ لیکن غزل کے میدان میں بہت نا م پیدا کیا ۔ ” دیوان حافظ “ نے حافظ شیرازی کی عظمت کو چا ر چا ند لگا دئیے۔ (عدنان محمود چوہان )
نو ٹو ں کی کہا نی
یہ اس زمانے کا ذکرہے جب دنیا میں سکوں اور نو ٹو ں کا وجو د نہیں تھا ۔ لو گ جنس کے بدلے جنس کے نظام (Barter System )کے تحت چیزو ں کا لین دین کر تے تھے ۔
ایک دفعہ یو ں ہوا کہ ایک مو چی جو تے لیکر نا ن بائی کے پا س گیا اور اس سے جو تو ں کے بدلے نا ن طلب کئے۔ نا ن با ئی بو لا ....” تم نے جو کل جو تے دئیے تھے ، اس کے بدلے میں نے شکاری سے گوشت لے لیا تھا اور پر سو ں جو جو تے دئیے تھے ، وہ میں نے پہنے ہو ئے ہیں ۔ مجھے جو تو ں کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہا ں البتہ میرا مٹی کا پیالہ ٹوٹ گیا ہے .... تم کمہار سے پیا لا لا دو تو میں تمہیں نان دے دو ں گا ۔ “
نا ن با ئی کی با ت سن کر مو چی کمہا ر کے پا س چل دیا تا کہ اسے جو تے دے کر پیالہ لے اور پھر اس پیالے کے بدلے نان حاصل کر سکے .... مگر جب مو چی نے جو تو ں کے عوض پیا لہ مانگا تو کمہا ر بو لا ” بھا ئی موچی ! میرے پا س جو تے ہیں....ہا ں اگر تم مجھے شکا ری سے گو شت لا دو تو میں تمہیں پیالہ دے دو ں گا ۔ ‘ ‘یہ سنناتھا کہ مو چی بغیر دم لئے کمہار کے پاس سے اٹھا اور سیدھا شکا ری کے پا س پہنچ گیا اور اس سے جو تو ں کے عوض گو شت طلب کیا ۔
شکا ری نے کہا ....” جو تے تومیرے پا س بھی ہیں ، میں ان کے بدلے تمہیں گو شت نہیں دے سکتا .... ہا ں البتہ اگر تم مجھے نیا چا قو لا دو تو میں تمہیں گو شت دے سکتا ہو ں .... کیو نکہ میرا پرانا چا قو زنگ آلو د ہو چکا ہے ۔“ مگر مرتا کیا نہ کر تا کے مصداق مو چی چاقو فروش کے پا س گیا تو چا قو فروش بو لا ....” مجھے تو جو تو ں کی ضرورت ہی نہیں ۔“
چاقو فروش کے بعد اب کوئی آسرا نہیں تھا .... جس کے پا س جا کر وہ کوئی ایسی چیز لے سکتا جو چا قو فروش کو دے کر اس سے چاقو حاصل کر تا .... پھر اس چا قو کے بدلے گو شت لے کر کمہار کو دیتا اور اس کمہا ر سے پیالا حاصل کر کے نا ن بائی کو دیتا تا کہ اس سے کچھ نا ن حاصل کر سکے ۔
شدید بھو ک اور نان کے حصول میں نا کامی نے مو چی کو غصہ دلا دیا اور وہ ایک میدان میں جا کر زور زور سے چیخنے لگا۔ ” یہ نظام درست نہیں ہے ....اس نظام کو بدلنا ہو گا ۔“مو چی کے چیخنے پر بہت سے لوگ وہا ں جمع ہو گئے اور جب انہیں حقیقت حال معلوم ہو ئی تو وہ سب کہنے لگے یہ صورت تو کبھی کبھی ہمارے ساتھ بھی پیش آجا تی ہے ....ہمیں اس مسئلہ کا کوئی حل تلا ش کر نا ہو گا ۔
بہت غور و خوض کے بعد یہ طے پا یا کہ سونے یا چاندی کو بطور زر استعمال کیا جائے .... جس کو جو چیز بھی چاہئیے ہو وہ اس کے بدلے ....لے لیں .... پھر یہ کہ سونا اور چا ندی جو تے نہیں جو گھس جا ئیں اور نہ ہی نا ن ہیں جو با سی ہو جائیں .... یہ مٹی کا پیالہ یا گو شت بھی نہیں جو ٹو ٹ جا ئے یا مڑ جائے اورنہ ہی یہ لوہے کی ایسی چیز ہے جسے زنگ لگ جائے ۔ یو ں متفقہ فیصلے کے بعد پہلی دفعہ سونے اور چاندی کے سکے ڈھالے گئے ۔ اب موچی سمیت تمام لو گ خو ش تھے جنہیں اپنی ضرورت کی چیز کے حصول کے لیے مارے مارے نہیں پھر نا پڑتا تھا بلکہ سونے اور چاندی کے سکوں کے بدلے انہیں وہ چیز فوراً مل جا تی تھی۔
بہت عرصہ بعد جب لو گو ں نے محسو س کیا کہ سکے تعداد میں زیادہ ہو جانے کے بعد ان کو لے کر سفر کر نا ایک مسئلہ بنتا جا رہا ہے تو لوگ ایک با ر پھر میدان میں جمع ہوئے اور انہو ں نے متفقہ طور پر کا غذ کے نو ٹ تیا ر کرنے کا فیصلہ کیا اور یو ں سونے اور چا ندی کے بھا ری سکوں کی جگہ کا غذ کے ہلکے پھلکے نوٹو ں نے لے لی ۔ (شمروز خان ۔ فیصل آبا د)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں